نظام صلاۃ
نظام صلاۃ
اسلامی جمہوریہ پاکستان کو حقیقی معنوں میں اسلامی اور
مدینہ جیسی ریاست بنانے کے لئے اسلام کے تمام ستونوں پر بنیاد رکھنا ہوگی۔ ان میں صلاۃ یعنی نماز کو مرکزی حثیت حاصل ہے- اس کے لئے
سعودی عرب کے نظام صلاۃ کا مطالعہ بہت مدد دے سکتا ہے۔ سعودی عرب میں نماز کی آذان
ہوتے ہی تمام کاروبار بند ہوجاتے ہیں اور سوائے غیرمسلم لوگوں کے سب خواتین و حضرات
مسجد کی طرف روانہ ہوجاتے ہیں۔ مساجد میں خواتین کے لئے الگ جائے نماز اور وضو کے
لئے حمام موجود ہیں۔ اس سہولت کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ مسلمان خواتین و حضرات نماز ادا کرتے ہیں۔ سفر کے
دوران یا شہر میں فیملی کے ساتھ بروقت نماز ادا کی جاتی ہے۔
پاکستان میں ان دونوں سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے نماز
باجماعت کا اس طرح اہتمام نہیں ہوتا جس میں زیادہ مسلمان شامل ہوسکیں۔پاکستان کی
اکثر مساجد میں خواتین کے لئے جائے نماز اور وضو کے لئے الگ انتظام نہیں ہوتا۔
اسلئے سفر کے دوران نماز کے پابند مرد بھی
اس لئے نماز موخر کر دیتے ہیں ۔ کم از کم
ان مساجد میں جو شہر میں موجود ہیں یا ان مساجد میں جو لب سڑک واقع ہیں ان میں
خواتین کے لئے جائے نماز اور الگ وضو کے
حمام بہت ضروری ہیں۔
پاکستان ایک بہت
خوبصورت ملک ہے جس کی وجہ سے سیاحت پر آنے
والے ملکی و غیرملکی سیاح میں اکثر مسلمان ہوتے ہیں، وہ توقع کرتے ہیں کہ دیگر
اسلامی ملکوں کی طرح اس کی مساجد میں وہ تمام سہولتیں موجود ہوں جو تمام فیملی کے ساتھ نماز ادا کرسکیں ۔ ان سہولتوں کے فقدان
کی داستان ایک نئے مسلم جوڑے کی ہےجس کا
تعلق یورپ سے ہے ، انہوں نے اسلام قبول کرنے کے بعد پاکستان کے
اسلامی اور ایٹمی ملک میں مستقل رہائش کے لئے منتخب کیا اور اس سے پہلے انہوں نے
سعودی عرب اور ترکی کا دورہ کیا اور انہیں دونوں ملکوں کی مساجد میں کوئی دقت نہیں
ہوئی۔ مگر جب وہ پاکستان آئے تو انہیں دیگر کچھ دشواریوں کے علاوہ مساجد میں خواتین کے
الگ حمام اور جائے نماز کی سہولت نہ ہونے سے سخت مایوسی ہوئی ۔ انہوں نے دکھ سے
بتایا کہ بیوی کو مردوں کے وضو خانہ میں
وضو کرنا پڑتا ۔ بالاخر انہوں نے بادل ناخواستہ پاکستان میں رہنے
کا ارادہ ترک کردیا۔ اس لئے اگر ان سیاحتی
علاقوں میں مساجد میں تمام فیملی کے لئے سہولیات مہیا ہوں تو زیادہ
مسلم سیاح ان علاقوں میں سیر کے لئے
آئیں گے اور ماحول بھی بہتر ہوگا۔
اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کا امیج بھی بہتر ہوگا ۔
خواتین اب ہر شعبہ زندگی میں کام کررہی ہیں تو ان کو مساجد
سے دور رکھنا اسلام سے مسلمانوں کو دور رکھنے کے مترادف ہے۔ وہ مردوں سے زیادہ نماز کی پابند ہوتی ہیں
اگر ان کے کام کرنے کی جگہ کے قریب مسجد میں ان کی نماز ادا کرنے کی سہولت ہوگی تو
وہ وہاں لازمی نماز ادا کریں گی۔ضرورت اس امر کی ہے شہروں میں اور لب سڑک مساجد
میں پہلے سے موجود مساجد میں مخیر حضرات اور حکومت خواتین کے لئے کم ازکم ایک کمرہ
معہ وضوخانہ تعمیر کرائیں تب جاکر نظام صلاۃ کا بنیادی تقاضہ پورا ہوگا۔ اور مساجد
میں نماز ادا کرنے والوں میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا۔ بے شک نماز برائیوں سے روکتی
ہے جس سے وطن عزیز سے کرپشن کا خاتمہ ہوگا ، ماحول بہتر ہوگا اور وطن کا وقار بلند
ہوگا۔
ابتدائے اسلام سے مردوں اور عورتوں دونوں کو مساجد میں آنے
کی اجازت ہے مگر ان کو علاحدہ علاحدہ جگہ دی جاتی ہے۔ شرعِ اسلام کے مطابق نماز کے
دوران عورتوں کی صفیں مردوں سے پیچھے ہوتی ہیں تاکہ مردوں کی نظر عورتوں پر نہ
پڑے۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دور میں مرد و زن دونوں مسجد میں نماز ادا
کرتے تھے اگرچہ عورتوں کے احترام اور حفاظت کے لیے بہتر خیال کیا جاتا ہے کہ وہ
گھر ہی میں نماز ادا کریں۔ آج کل اکثر مساجد میں عورتوں کے لیے علاحدہ جگہ بنی ہوتی
ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں عورتوں کے مسجد میں آنے کا رواج نہ ہونے کے برابر ہے مگر
اس کا تعلق اسلام سے نہیں بلکہ یہاں کی معاشرت سے ہے۔ عرب ممالک میں اور جدید مساجد
میں عورتیں آتی ہیں، نماز پڑھتی ہیں اور مختلف تعلیمی سرگرمیوں میں حصہ لیتی ہیں۔
Comments
Post a Comment